آج کا دَور ترقی یافتہ
کہلاتاہے، ہر گوشہٴ زندگی میں نت نئی ایجادات ہورہی
ہیں، جدید اِکتشافات کے سامنے عقل و خرد محو حیرت ہے، آج دُنیا
کی دُوری ختم ہوچکی ہے، ذرائع ابلاغ اور وسائل نقل و حمل نے ترقی
کرکے سالوں اور مہینوں کے کام دِنوں گھنٹوں اور منٹوں میں ممکن کردئیے
ہیں، پہلے کے بالمقابل آج مال و دولت کی بھی کمی نہیں
رہی، حقیقت میں آج زمین سونا اُگل رہی ہے، سمندروں
نے اپنی تہوں سے ہیرے، موتی اور جواہر پارے ”سواحلِ انسانی“
پر لاکر رکھ دئیے ہیں۔ سارے اسباب ووسائل کے باوجود آج لوگوں کو
سکون وطمانینت حاصل نہیں، ایک دائمی بے اطمینانی
ہے، جو سب پر مسلط ہے، ہر طرف ظلم و ستم کی گرم بازاری ہے،آئے دن
فسادات اور قتل و غارت گری ہورہی ہے، نت نئے فتنے جنم لے رہے ہیں،
فتنوں کا نہ تھمنے والا سیلاب امڈتا چلا آرہا ہے، جس طرف دیکھئے
اختلاف ہی اختلاف ہے، بین الاقوامی اختلاف، فرقہ واری
اختلاف، سیاسی پارٹیوں کا اختلاف، خاندان کااختلاف، گھر اور
افراد کا اختلاف اور نہ جانے کون کون سے اختلافات ہر سو رونما ہورہے ہیں۔
ہر آدمی ایک دوسرے سے مختلف و منحرف نظر آرہا ہے۔ خود غرضی
عام ہورہی ہے،اخلاق و پاک دامنی کا فقدان ہے، شرافت و امانت ناپید
ہورہی ہے، امن وآشتی اور سکون و عافیت مفقود ہوتی چلی
جارہی ہے۔ کون سی ایسی برائی ہے جس کا تصور کیا
جائے اور وہ معاشرے میں موجود نہیں، زِنا اور شراب نوشی عام
ہے۔ سود اور سودی کاروبار ہر گھر میں پہنچ چکا ہے، جوا اور سٹہ
بازی کی نئی نئی شکلیں اختیار کی جارہی
ہیں، دخترکشی بلکہ نسل کشی ایک فیشن بن گئی
ہے۔ آج کے اِس دَور کو کون سا دَور کہیں گے؟ فتنوں کادَور! گناہوں کا
دَور! بے حیائی اور بے لگامی کا دَور! خودسری اور خودغرضی
کا دَور! شیطانی دَور! یاجوجی یا ماجوجی
دَور! سمجھ میں نہیں آتا کہ عصرِ حاضر کو کیا نام دیا جائے؟
دَورِ حاضر دَورِ جاہلیت کی طرف تیزی سے رَواں دَواں ہے؛
بلکہ بعض لحاظ سے اِس سے بھی آگے جاچکا ہے۔ اِن جملہ خرابیوں کو
دُور کرنے اور اِن پر قابو یافتہ ہونے کی سارے عالم میں کوششیں
کی جارہی ہیں؛ لیکن کوئی کوشش کامیاب ہوتی
نظر نہیں آتی۔ نئی نئی تجاویز روبہ عمل آکر فیل
ہورہی ہیں؛ تعمیر کے بجائے تخریب کا باعث بن رہی ہیں،
یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ، ہونا بھی یہی
چاہئے؛ اِس لیے کہ اِن جملہ خرافات، بے اطمینانی اور بے چینی
پر قابو پانے کے لیے محض انسانی تدبیریں اختیار کی
جارہی ہیں۔ اور انسانی تدبیریں پورے طور پر کامیاب
ہی کب ہوتی ہیں؟
آج ضرورت ہے اُن تدبیروں کی
اورنسخہٴ کیمیا کی جو نبیٴ اُمی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھٹکی
ہوئی انسانیت کے لیے استعمال کیا تھا۔ یہ
خالقِ کائنات کا عطا کردہ نسخہ تھا، جس نے گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں
پھنسی ہوئی انسانیت کو روشن شاہ راہ پر لاکھڑا کردیا۔
جس نے بدترین خلائق کو بہترین خلائق بنادیا اورجس نے مردوں کو
مسیحا کردیا۔
عصر حاضر کے مذہبی اختلاف میں سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی
عالمی پیمانے پر اتحاد واتفاق
قائم کرنے کی ضرورت آج سب سے زیادہ محسوس کی جارہی
ہے۔ آج کوئی ایسا اقتدار نہیں جس کو سب لوگ تسلیم
کریں، جس کی سب اطاعت کریں، کسی متفقہ اقتدار کا نہ
ہونا،آج کی سب سے بڑی کمی ہے، ایک قوم دوسری قوم کو
دیکھنا نہیں چاہتی،مختلف قسم کے معاہدے ہوتے ہیں اور ٹوٹ
جاتے ہیں، اِن کے حل کے لیے اگریہ سوچا جائے کہ کسی ایک
انسان کی حاکمیت پر سارے لوگ متفق ہوجائیں، ہر ایک اِس کی
اتباع کریں، تو ایسا فطری طور پر ناممکن ہے؛ اس لیے کہ آج
ہر قوم دوسری قوم کی مخالف ہے، توجس انسان کا بھی انتخاب ہوگا
وہ کسی ایک قوم کافرد ہوگا،اس ایک پر اگراتفاق سے اپنی
قوم متفق ہوگئی تو دوسری اقوام کو متفق کرنا آسان نہیں ، پھریہ
کہ انسان نفسانی اغراض اور ذاتی خواہشات سے پاک نہیں ہوتا اگر
کسی پر اتفاق کرلینے کی پوری دُنیا کوشش بھی
کرے تو وہ آدمی وقت کا ”فرعون“ اور دَورِ حاضر کا ”بُش“ ثابت ہوگا، وہ سارے
فوائد اپنے لیے، اپنے خاندان، اپنے فرقے اور اپنی قوم کے لیے سمیٹ
لے گا، دوسرے لوگ محروم اور منہ تکتے رہ جائیں گے۔ اِس طرح انصاف کی
جگہ ظلم اور مساوات کی جگہ بے اعتدالیوں کی حکومت ہوگی۔
کسی آدمی کا علم اتنا وسیع نہیں ہوسکتا کہ ہر انسان کی
ضروریات معلوم کرسکے۔ اصلاح و فلاح کی صورتوں سے واقف ہو، ہر ایک
کی فطرت کو جانتا ہو؛ اِس لیے وسیع ترین علم نہ ہونے کی
وجہ سے وہ جگہ جگہ ٹھوکریں کھائے گا،اور پوری انسانی آبادی
کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کردے گا؛ اس لیے کسی انسان پر پوری
نوعِ انسانیت کا متفق ہونا ناممکن اور لاحاصل ہے۔
اِس اختلاف کے ختم کرنے کی ایک
دوسری شکل بھی ممکن نہیں کہ ساری انسانیت مل کر کسی
ایک اِدارہ کی حاکمیت کو تسلیم کرلے، اُس کے ہر حکم کو من
و عن مان لے، کوئی اِدارہ سارے انسانوں کو اپنی اطاعت پر مجبور نہیں
کرسکتا،اور نہ ہی ایسا متفقہ قانون بناسکتا ہے، جس میں ہر ایک
کی فطری ضرورتوں کا پورا لحاظ اور قانون ایسا عزیز بلکہ
ہر دِل عزیز ہو کہ سارے لوگ اس کو جان و دل سے ماننے لگیں۔
بالآخر یہ اختلاف و انتشار ختم نہیں ہوگا؛ بلکہ لازمی طور پر اس
اِدارے میں جس قوم کی نمائندگی زیادہ ہوگی، اِدارہ
اس کے لیے بازیچہٴ اطفال بن کر رہ جائے گا۔ وہ اُس کی
آڑ میں اپنے اُلّو سیدھا کرنے میں مشغول و مصروف رہیں
گے۔ دُنیامیں جتنے اِدارے عالمی پیمانے پر قائم
ہوئے اُن سب کا حال یہی ہوا، آج اِس کی واضح مثال عالمی
تنظیم ”اقوامِ متحدہ“ ہے۔
لہٰذا آج اختلاف حل کرنے کے لیے
وہی کرنا ناگزیز ہے جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا،
آپ نے اختلاف وانتشار سے تباہ دُنیا کو متحد کرکے عملی مثال پیش
کردی، آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے دُنیا کو بتادیا کہ اے انسانو! کسی انسان یا کسی
اِدارے کی حاکمیت کو تسلیم کرنے کے بجائے ایک ایسی
ذات کی حاکمیت کو تسلیم کرلو جس نے سارے انسانوں اور اِداروں کو
جنم دیا ہے۔ جو خالقِ ارض و سماوات اور ”خالق
الحب والنوی“ ہے۔ اُسی نے سارے انسانوں کو پیدا کیا وہی اُن
کاپالنہار ہے، وہی سب کی زندگی اور موت کا مالک ہے۔ وہ ہر
ایک کی فطری ضرورتوں سے واقف ہے، ہر ایک کو رزق وہی
پہنچاتا ہے، اُسی کی دُنیا اُسی کا عقبیٰ ہے،
وہی نظامِ عالم کا نگراں اور مدبّر و منتظم ہے۔ ”الا لہ
الخلق والامر تبارک اللّٰہ رب العالمین“ (الاعراف:۵۴) وہی
کائنات کا حقیقی فرماں روا ہے، اُسی کی حاکمیت کو
تسلیم کرنے میں بھلائی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ”دعوتِ
توحید“ کو جوق در جوق افرادِ انسانی نے قبول کیا، مذہبی
اختلافات کے ختم کرنے کا یہ سب سے بڑا مشترکہ پلیٹ فارم ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے اُس وقت کے موجودہ اہلِ کتاب، یہود و نصاریٰ کو توحید
پر متحد ہوجانے کی دعوت دی اور بحکم خدا ارشاد فرمایا:
”یٰٓأَہْلَ
الْکِتَابِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَةٍ سَوَآءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ
أَنْ لاَ نَعْبُدُ اِلاّ اللّٰہَ وَلاَ نُشْرِکَ بِہ شَیْئًا وَلاَ یَتَّخِذَ
بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ“ (آل عمران:۶۴)
ترجمہ: ”یعنی اے اہلِ کتاب! ایک
ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان (مسلم اور)
برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اور اللہ کے
ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں،اور ہم میں سے کوئی
اللہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو رب قرار نہ دے۔“
اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت
کے درمیان مذہبی اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش فرمائی، آج سیرتِ
نبوی صلی اللہ علیہ
وسلم سے انسانیت کو یہ رہنمائی مل رہی ہے کہ اے بنی
آدم! دہریت اور خدا کے انکار کو چھوڑ کر وحدہ لاشریک لہ
پرایمان لے آؤ، سارے انسان مل کر بس اُسی کی رسّی کو تھام
لو، اُسی میں امن وسکون اور طمانیتِ قلبی ہے، اِس کے
علاوہ کسی غیر کو تسلیم کرکے قلوب کو راحت نصیب نہیں
ہوسکتی۔
”وَاعْتَصِمُوْا
بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لاَ تَفَرَّقُوْا“ (آل عمران:۱۰۳)
ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ کے سلسلہ
کو باہم متفق ہوکر پکڑے رہو اورآپس میں اختلاف نہ کرو“
توحید کی رسّی ہی
ایک ایسی رسّی ہے جس نے عرب کی آپس کی دُشمنی
اور رسّہ کشی کو ختم کرکے سب کے دِلوں کو جوڑ دیا، اور سارے لوگ بھائی
بھائی ہوگئے، ورنہ سب کے سب جہنم رسید ہونے والے تھے،اللہ تعالیٰ
فرماتے ہیں:
”وَاذْکُرُوْا
نِعْمَةَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْکُنْتُمْ أَعَدَاءً فَأَلَّفَ بَیْنَ
قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہ اِخْوَانًا، وَکُنْتُمْ عَلٰی
شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنْقَذَکُمْ مِنْہَا“ (آل عمران: ۱۰۳)
ترجمہ: ”اور تم پر جو اللہ کا انعام ہے
اُس کو یاد کرو جب کہ تم لوگ آپس میں ایک دُوسرے کے دُشمن تھے،
لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہارے دِلوں میں الفت پیدا
کردی؛ چنانچہ تم لوگ اللہ کی نعمت سے بھائی بھائی ہوگئے،
حالانکہ تم لوگ جہنم کے گڑھے کے کنارے پر تھے کہ اللہ نے تمہاری جان بچالی“۔
”رحمة للعالمین“ نے بتایا کہ
اُس اللہ نے ایک قانونی کتاب نازل فرمائی ہے، جس قانون میں
ہر ایک کی مصلحت کی رعایت ہے، اُس کتاب پر عمل کرنے میں
مرنے سے پہلے اور مرنے کے بعد دونوں زندگیوں میں سکون و راحت ہے؛
چنانچہ اطرافِ عالم سے جوق در جوق انسانوں کی بھیڑ نے اُس قانون کو
تسلیم کیا، جب وہ قانون روبہ عمل لایاگیا تو دُنیا
کو اضطراب سے راحت ملی، بے کل مریضوں کو جس نسخہ سے صدفی صد
فائدہ ہوسکتا تھا وہ نسخہ مل گیا، اُس قانون میں گذشتہ نازل کردہ قوانین
کی رعایت رکھی گئی تھی، جس طرح ڈاکٹر کے بنائے ہوئے
بعد کے نسخے میں گذشتہ نسخوں کی دواؤں کا لحاظ رکھا جاتاہے۔ بعد
کے نسخوں سے گذشتہ نسخہ منسوخ ہوجاتا ہے، اِسی طرح یہ آخری نسخہ
قانون ہے اورجس طرح ہر کتاب کے ساتھ ایک سمجھانے اور تشریح کرنے والا
بھیجا جاتا رہا ہے، میں بھی اِس آخری کتاب کی تشریح
کے لیے بھیجا گیا ہوں، اِس کتاب اور میری تفسیر
میں دُنیا کے لیے راحت ہے، اِسی کے ذریعہ دُنیا
میں امن و امان قائم ہوسکتا ہے؛ چنانچہ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت
قبول کی، جس سے دُنیا نے سکون کا سانس لیا۔ مذہبی
اختلافات بڑی حدتک ختم ہوئے، دُنیا نے اُس قانون کو نافذ کرکے آزمایا،
آج بھی اُسی دعوت کو عام کرنے کی ضرورت ہے، آج کی دُنیا
پیاسی ہے، دعوتِ توحید کی، دعوتِ رسالت اور دعوتِ ایمان
کی! کیاہے کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے
طرزِ دعوت کو اپنانے والا؟ تاکہ بھٹکی ہوئی انسانیت راہِ راست
پر آجائے اور پھر سے انسانوں میں ایک باپ کے بیٹے اور ایک
خدا کے پجاری ہونے کی سمجھ پیدا ہو؟
قومی و نسلی اختلافات میں سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی
پہلے کی طرح آج بھی لوگ قومی
تفاخر اور نسلی اختلاف میں پڑے ہوئے ہیں۔کالے گوروں کا
اختلاف، علاقے، علاقے کااختلاف، ملکی اور غیرملکی امتیاز،
اِن تمام اختلافات و امتیازات کی وجہ سے جو پریشانی پہلے
تھی اِس سے کہیں زیادہ آج ہے، پہلے تو دُنیا کی قومیں
الگ تھیں، لیکن آج دُوری نزدیکی میں بدل گئی،
پوری دُنیا ایک خاندان اور گھر کی طرح ہوگئی ہے؛
اِس لیے آج بھی اُن امتیازات کو ہٹاکر ہی سکون کا سانس لیاجاسکتا
ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم اِس طرح تفاخر و امتیاز سے پیدا ہونے والے نقصانات سے
خوب واقف تھے، آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے اُن کو جڑ سے ختم کرنے کا اعلان فرمادیا اور انسانوں کو
سبق دیا کہ دیکھو تم سب ایک خالق کی مخلوق ہو، ایک
اللہ کے پجاری ہو؛ اِس لیے اختلافات و امتیازات کو ختم کرو اور یاد
کرو کہ تم سب ایک ہی باپ کی اولادہو اور تمہارے باپ مٹی
سے پیدا کیے گئے، مٹی میں تواضع، انکساری اور فروتنی
ہوتی ہے تم سب بھائی بھائی بن کر رہو، کالے گوروں میں سے
کسی کو کسی پر فضیلت نہیں، عربی اور غیرعربی
ہونا ہی کوئی امتیاز و تفوق کی بات نہیں، ہاں تفوق
اور برتری تقویٰ کی بنیاد پر قائم ہوسکتی
ہے۔ (حجة الوداع کا خطبہ) تم میں سب سے زیادہ اللہ کو محبوب وہ
شخص ہے جو سب سے بڑا پرہیزگار، متقی اور محتاط ہے۔ (سورئہ
حجرات:۱۳)
غور کیجئے کہ جس ماحول میں
اللہ کے نبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے یہ تعلیم دی وہ چھوٹی سی تعداد
میں ہونے کے باوجود درجنوں قبیلوں میں منقسم تھا، پھر ہر قبیلے
کے مختلف ٹکڑے تھے اور ہر ایک کے مختلف خاندان اور کنبے تھے۔ ہر ایک
اپنا ایک امتیاز رکھتا تھا، سب آپس میں دست و گریباں تھے اُن
کے اندر سے امتیاز و تفاخر اور تفوق برتنے کے سارے جرائم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم کردیا،
وہ سب کے سب بھائی بھائی ہوگئے، جہاں گئے وہاں اُسی تعلیم
نبوی صلی اللہ علیہ
وسلم کو عام کیا، اِس طرح ایک عالم گیر برادری اور ہمہ گیر
اخوت وجود میں آگئی، ہر فرد ایک دوسرے سے اِس طرح جڑا محسوس کرتاتھا،
جس طرح جسم کے اعضاء ایک دوسرے سے ملے ہوتے ہیں، آج بھی اُسی
تعلیم کو عام کرنے سے یہ نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، انسانیت
کا اختلاف اور تصادم یقینی طور پر ختم ہوسکتا ہے۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کی مکی اور مدنی زندگی سے عصر حاضر میں رہنمائی
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت
عالم گیر ہے، آپ صلی اللہ
علیہ وسلم پوری دُنیا کے لیے چراغِ راہ بن کر تشریف
لائے تھے۔ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم ہی کی سیرت و سنت کو سامنے رکھ کر دُنیا
راہ یاب ہوسکتی ہے، ہر طرح کے مسائل کا حل آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی
اتباع میں مضمر ہے، جملہ خرافات و مصائب سے نجات کا ”نسخہٴ کیمیاء“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
زندگی میں ہی مل سکتا ہے، اگر کوئی شخص غیرمسلم
اکثریت والے ملک میں رہ رہا ہے تو اُس کو دعوت و تبلیغ کے لیے
کیا طریقہ اپنانا چاہیے؟ عائلی قوانین اور پرسنل
لاء پر وہ کس طرح عمل کرے؟ اپنے نزاعی معاملے کس طرح حل کرے؟ غیرمسلموں
کے ساتھ کیسا سلوک کرے؟ وغیرہ، اِن سارے سوالوں کاجواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی
زندگی میں ملے گا، اِسی میں یہ درس بھی موجود
ہے کہ اگر آج کوئی شخص ایسی جگہ رہ رہا ہے جہاں سارے جتن کے بعد
بھی اِسلام کے احکام پر عمل نہیں کرسکتا تو وہ وطن کے مقابلے میں
دین کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے وطن اور گھر بار سب کو خیرباد
کہہ دے اور اپنی سکت اور کوشش کے مطابق دُنیا کی ایسی
جگہ کو وطن بنائے جہاں اِسلام پر عمل کرنے کی پوری اجازت ہو، احکامِ
اِسلام کے نفاذ میں کوئی شئے مانع نہ ہو، آج ہجرت پر عمل کرنا پیچیدہ
ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ
کرام رضی اللہ عنہم کو جب کفار نے صرف ایمان باللہ اورایمان
بالرسول کی وجہ سے اپنے محبوب وطن مکہ مکرمہ میں ستانا شروع کیا
اور ناقابلِ برداشت اذیتیں پہنچائیں، جان کے درپے ہوگئے؛ تو ایسی
صورت میں دین کی حفاظت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے حبشہ کی
طرف ہجرت کی اجازت دی، اِس کے بعد مدینہ کی؛ اخیر میں
اپنے رفیقِ غار صدیق و غمگسار کے ساتھ بہ نفس نفیس ہجرت کی،
دین اور ایمان کی حفاظت کے لیے مال و دولت، عزیز
واقارب اور گھر بار ہر ایک کو قربان کردیا، آج بھی دُنیا
کے کسی کونے میں مسلمانوں کی یہ حالت ہوجائے تواُس کیلیے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کی سیرت اور آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ عمل کے لیے موجود ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ
جانے کے بعد وہاں بسنے والے قبائل اَوس اور خزرج اور یہود و نصاریٰ
سے معاہدات کیے، آپسی تعاون وتناصر اور رواداری کے دستاویزات
مرتب کیے، پھر اپنی تحریک دعوت و تبلیغ کو تیز تر کیا،
آہستہ آہستہ لوگ اِسلام میں داخل ہوتے گئے، پھر کیاتھا کہ چند برسوں میں
سارا عرب کلمہ ”لآ الٰہ الی اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ“
کاقائل ہوگیا۔ ہر جگہ امن و امان پھیل گیا، وہ جنگجو قومیں
جن کا کام ہی قتل و غارت گری تھا، جنگ سے کبھی تنگ نہ آئی
تھیں، آپسی چپقلش کا نہ ٹوٹنے والا سلسلہ رکھتی تھیں، سب
شیروشکر کی طرح مل گئیں، سب ایک دوسرے کے دوست
ہوگئے۔ع
جو
نہ تھے خود راہ پر اَوروں کے ہادی بن گئے
رسولِ مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی
سے آج بھی یہ سبق ملتا ہے غیرمسلموں سے معاہدات کرنا درست
اورجائز ہے، دعوت و تبلیغ کے لیے سب سے پہلے ماحول سازگار کرنا ضروری
ہے۔ اِسی کے ساتھ احکامِ الٰہی کے نفاذ کی کوشش میں
لگے رہنا رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی سنت ہے، اِسی طرح مخالف ماحول موافق ہوسکتا ہے، آج
کا دَور اشاعتِ اسلام کے لیے نہایت موزوں دَور ہے، عام لوگوں میں
معقولیت پسندی پہلے کی بہ نسبت زیادہ ہے، اگر آج اِسلام
کا صحیح تعارف کرایا جائے، اِس کے لیے سارے جائز وسائل استعمال
کیے جائیں تو پھر ۔ع
یہ
چمن معمور ہوگا نغمہٴ توحید سے
آج دُنیا بے راہ روی، ظلم و
ستم، بے کیفی اور بے اطمینانی سے عاجز آچکی
ہے۔ اِس کو تلاش ہے کسی صحیح منزل کی، امن وآشتی کی،
اطمینان اور سکون کی، اِسلام میں یہ سب کچھ موجود
ہے۔ صرف ضرورت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام
رضی اللہ عنہم کے مشن کے اپنانے کی۔ رسولِ مکی و مدنی
صلی اللہ علیہ وسلم کی
سیرت کی اتباع کی۔
مکمل احکامِ اسلام کا نفاذ عہدِ حاضر کی ناگزیر ضرورت
روز بروز فسادات ہورہے ہیں، قتل ایک
آسان کام، غارت گری اور لوٹ گھسوٹ دولت کمانے کا ذریعہ ہوگیا
ہے، زنا اور شراب نوشی عام ہے، ایک دُوسرے پر تہمت لگانا کوئی
اہم بات نہیں، رشوت اور سودخوری دُنیا کی ضرورت میں
داخل ہوگئی ہے، آئے دن اغوا کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ اِس
طرح کے اور بھی سرکشیاں پھیلی ہوئی ہیں؛ ان
سب کا علاج اسلامی احکام کا نفاذ ہے۔ ضرورت ہے کہ آج قتل کرنے والے پر
قصاص اور دیت کے احکام جاری ہوں تب ہی قتل کے اَن گنت واردات پر
قابو یافتہ ہوا جاسکتا ہے، حدزنا کے نفاذ سے ہی زنا جیسی
گندی اور فحش کرتوت کا خاتمہ ہوسکتا ہے، حد سرقہ کے نفاذ سے ہی چوری
کے واقعات پر قابو یافتہ ہوا جاسکتا ہے۔ آج اگر حدقذف نافذ ہوتب ہی
تہمت لگانے والوں کی زبان پر تالا لگ سکتا ہے، غرض یہ کہ دُنیا
میں امن وامان اور سکون و اطمینان کا ماحول پیدا کرنے کے لیے
روئے زمین پر حدود و قصاص اور تعذیراتِ اسلامی کا نافذ ہونا
ضروری ہے، آج عملاً دُنیا اسی کا انتظار کررہی ہے، اگر
قاتل کو یہ معلوم ہوکہ ہمیں قتل کرنے کے جرم میں قتل کردیا
جائے گا تویقینا قتل سے پہلے وہ سوچنے پر مجبور ہوگا، ہاتھ کانپنے لگیں
گے، دِل لرزنے لگے گا اور قاتل اپنی جان بچانے کے لیے ایسے قتل
کی ہمت نہیں کرے گا، اِس طرح اُس آدمی کی بھی زندگی
بچ جائے گی جس کے قتل کا ارادہ قاتل نے کیا تھا اور روئے زمین
پر انسان اور انسانیت کی قدر بڑھ جائے گی، زندگی کی
قیمت میں اضافہ ہوگا،اِسی لیے قرآن نے کہا ہے:
”وَلَکُمْ
فِی الْقِصَاصِ حَیَاةٌ یٰآ أوْلِی الأَلْبَابِ
لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون“ (سورہ بقرہ: ۱۷۹)
ترجمہ: کہ اے اہل خرد! قصاص (کے احکام کے
نفاذ) میں تمہارے لئے زندگی ہے؛ تاکہ تم لوگ اختیار اورپرہیز
کرنے لگو۔
اگرچور کو معلوم ہو کہ چوری پر ہاتھ
کاٹ دیا جائے گا توچوری کرتے وقت اُس کے ہاتھ کانپ جائیں گے اور
وہ چوری سے باز آجائے گا، اِس طرح چوری سے روئے زمین پاک ہوگی،
لوگوں کوجان کے ساتھ اُن کے مال کی حفاظت کا ایک ماحول بن جائے
گا۔ زانی کو اگر یہ معلوم ہوجائے کہ زنا کی سزا میں
سوکوڑے لگائے جائیں گے۔ (سورئہ نور:۲) یا پتھروں سے چور
چور کر ہلاک کردیا جائیگا۔ (بخاری:۱/۲۷۶)
تو ہرگز زنا کا ارتکاب نہیں کرے گا، اس طرح روئے زمین پر عفت و پاک
دامنی کا دَور دَورہ ہوگا، غرض یہ کہ آج کی دُنیا کو سکون
اُنھیں قوانین کے نفاذ کے بعد مل سکتا ہے؛ جن قوانین کو نافذ
کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے روئے زمین پر امن وامان پھیلایا تھا اور پریشان
ماحول کو سکون فراہم کیاتھا، دوسرے قوانین میں وہ جامعیت
اور گرفت نہیں ہوسکتی جو اللہ کے قوانین میں ہے، قوانین
تیار کرنے کے لیے عقولِ انسانی کافی نہیں ہیں۔
وہ آج کوئی قانون بناتے ہیں کل ہوکر اُس کی غلطی واضح
ہوجاتی ہے، ردوبدل کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چلتا رہتا ہے اور
چلتا رہے گا، تبھی تو اللہ تعالیٰ نے روئے زمین پرامن و
امان اور سکون و عافیت پھیلانے والے قوانین خود وضع کیے،
کسی انسان حتیٰ کہ کسی نبی کے بھی سپرد نہیں
کیا۔
حقوق کے معاملہ میں عام طور سے بے
اعتدالی ہوسکتی تھی؛ بلکہ ہوئی ہے؛ اس لیے اللہ
تعالیٰ نے والدین کے حقوق، میراث میں ورثا کے حقوق،
میاں بیوی کے حقوق وغیرہ کو خود سے بیان فرمادیا؛
تاکہ بالاتفاق نوع انسانی اُن قوانین کو تسلیم کرلے اور روئے زمین
پر حق تلفیوں کا سلسلہ ختم ہوجائے، اللہ کے اِن قوانین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نافذ فرمایااور
دنیا نے صدیوں تجربہ کیا اور آج بھی کررہی ہے کہ حقیقت
میں نظامِ عالم پر کنٹرول اللہ کے قوانین کے نفاذ سے ہی ممکن
ہے، اُن کے بغیر یہ دُنیا راحت و سکون کا مسکن نہیں بن
سکتی، امن و آشتی کا ضامن صرف اور صرف اسلام ہے، حقیقت میں
آج پوری انسانیت اپنی زبانِ حال سے اُسی دَور کو پکار رہی
ہے جس دَور میں رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے سارے قوانین کو روبہ عمل لاکر ایک
معطر و معنبر ماحول تیار کیاتھا اور انسانیت کو اُس کی صحیح
منزل پر پہنچایا تھا۔
عصر حاضر میں اخلاقِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم
عام کرنے کی ضرورت
موجودہ دَور کاسب سے بڑا المیہ
اخلاقیات کا فقدان ہے، جھوٹ، چوری، وعدہ خلافی، بغض، کینہ،
فخر، غرور، ریا، غداری، بدگوئی، فحش گوئی، بدگمانی،
حرص، حسد، چغلی غرض یہ کہ ساری اخلاقی برائیاں، عام
انسانوں اور مسلمانوں میں ہی نہیں؛ بلکہ خواص میں بھی
اخلاقیات کاانحطاط آگیا ہے۔ اِس انحطاط و تنزل کا صرف اور صرف ایک
ہی علاج ہے کہ ہر بری خصلت کی برائی معقول انداز میں
بیان کی جائے۔
اِس سلسلے میں قرآن وحدیث کے
نصوص واضح کیے جائیں؛ تاکہ معقولیت پسند طبقہ شریعت سے قریب
ہو، اُس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کے اخلاقِ فاضلہ کو بھی بیان کیاجائے اور اُن
کے اختیار کرنے کی تلقین کی جائے، ایک دین
دار مسلمان کو اپنے اخلاق و کردار میں کیساہونا چاہیے؟ درس گاہِ
نبوت کے تربیت یافتہ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کیسے
تھے؟ اُن کے اندر اخلاص و تقویٰ، شرم و حیاء، صبر وشکر کی
صفات تھیں، وہ دیانت دار، امانت دار اور سخاوت و شرافت کے خوگر
تھے۔ اُن کے اندر ایثار و قربانی، عفت و پاک دامنی اور
تواضع و انکساری کی اعلیٰ صفات پائی جاتی تھیں۔
وہ خوش کلام، خوش الحان، خوش دِل اور رحم و کرم کے پیکر تھے، وہ ہمیشہ
موت کو یاد رکھتے تھے، اُن کے معاملات کی صفائی سے لوگ متاثر
تھے، یہ ساری چیزیں آیات واحادیث کی
روشنی میں بیان کی جائیں تو بڑا موثر رہے گا، اپنوں
کی اصلاح تو ہوگی ہی، غیر بھی متاثر ہوئے بغیر
نہیں رہ سکتے، سچ ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی
تعلیمات کو اگر عام کیا جائے تو ضرور بالضرور ایک ایسا
صالح معاشرہ وجود میں آئے گا جو صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اور
خیرالقرون کے معاشرہ کے مماثل ہوگا، جن میں ساری خوبیاں
موجود تھیں، یہ خوبیاں آج تاریخ کے صفحات کی زینت
بنی ہوئی ہیں، جو کبھی زندگی میں موجود تھیں،
پہلے مسلمانوں کو دیکھ کر اُن کے بلند و بالا اخلاق سے متاثر ہوکر لوگ
اِسلام قبول کرتے تھے، آج اسلام اوراِسلام کی اخلاقی تعلیمات کو
سمجھنے کے لیے کتب خانوں کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ کاش ! رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی
تعلیمات زندگیوں میں رچ بس جائیں تو بات ہی دُوسری
ہوجائے۔
عصر حاضر کی جملہ خرابیوں کو دُور کرنے میں سیرتِ نبوی
صلی اللہ علیہ وسلم کی
رہنمائی
یہ دور ”پی ایچ، ڈی“
اور تخصصات کا دور کہلاتا ہے اگر کسی تحقیق کے طالب علم کوآج کے دور کی
ظاہراور باطنی خرابیوں کے شمار کرنے کا موضوع دے دیا جائے؛ بلکہ
ایک نہیں متعدد طالب علموں کو اِس موضوع پر لگایا جائے تب بھی
ساری خرابیاں بیان نہیں ہوسکیں گی، اِن ساری
خرابیوں کی وجہ اِسلام اور تعلیم اسلام کا عام نہ ہونا
ہے۔ اللہ کے نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کی اصل بعثت کا مقصد دُنیا کو اعتدال پرلانا
تھا،اِس کے لیے آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے (۱) پوری زندگی دعوتِ اصلاح و تبلیغ میں
صرف کرڈالی۔ (۲) تربیت کے ذریعہ ایسے افراد پیدا
کیے، جن میں ایمان کامل تھا، آخرت کا استحضار تھا، وہ ذکر
الٰہی کا اہتمام کرتے، راتوں میں تہجد گذار اور دِنوں میں
مجاہد برسرپیکار ہوتے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اُنھوں نے
اپنی زندگی کا مشن بنالیا تھا۔ (۳) غیروں کی
اصلاح سے پہلے اپنی ذات کی اصلاح کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توجہ دلائی۔
(۴) اللہ رب العزت کے سارے احکام سے لوگوں کو واقف کرایا۔
(۵) اللہ کے سارے احکام کو زمین پر نافذ کرنے کی کوششیں
اور تدبیریں کیں۔ (۶) ہر ایک کے حقوق کو واضح
فرمایا، خصوصاً کمزور طبقات مثلاً عورتوں، بچوں، غلاموں، خادموں اور جانوروں
کے حقوق کو متعین فرماکر اُن کی ادائیگی کی تلقین
فرمائی۔ (۷) معاشرہ میں پیدا ہونے والی خرابیوں
پر گرفت کرنے اور ایک دُوسرے کواحکامِ الٰہی کی تعمیل
کی تلقین کامزاج بنایا۔ (۸) آیات واحادیث
کی تعلیم کے ساتھ اُن پر عمل کرنے اور خود احتسابی کی تعلیم
دی۔ (۹) آیات کی تفسیر اور احادیث کے یاد
کرنے اور اُن کے مذاکرے کا ماحول بنایا۔ (۱۰) اخلاقِ رذیلہ
کی خرابیوں کو بیان کرکے اُن سے بچنے اور اخلاقِ فاضلہ کو اختیار
کرنے کی تلقین فرمائی۔ (۱۱) ایسا ماحول
بنایا کہ ہر آدمی دعوت اصلاح و تبلیغ کو اپنی ذمہ داری
سمجھنے لگا تھا۔ اگر آج بھی مذکورہ بالا نبوی طریقہٴ
کار پر عمل ہو تو معاشرہ کی ساری خرابیاں دُور ہوسکتی ہیں۔
آج ضرورت ہے کہ قرآن کو ترجمہ کے ساتھ پڑھا جائے اوراُس کی تفسیر کو
عام کیا جائے، ساتھ ہی احادیث کی تعلیم کا بھی
اہتمام ہو، غیروں کے بجائے اپنی خرابیوں پر غور کیاجائے
اوراصلاح کی کوشش کی جائے؛ نیز تذکیر و موعظت اور تبلیغ
و دعوت کا اہتمام کیا جائے تو ضرور معاشرہ درست ہوگا۔ سیرتِ نبوی
صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں
سب سے بڑی رہنمائی یہی مل رہی ہے کہ جس عرق ریزی
سے خیرالقرون کا صالح معاشرہ بنا آج بھی وہی ماحول پیدا
ہو اور ہمارا مقصد صرف اور صرف رضائے الٰہی اورآخرت کی کامیابی
ہو اور بس!
$ $ $
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ2، جلد:
90 ،محرم1427 ہجری مطابق فروری2006ء